From the Book- اسلام اور فتنہء احمديت
باب
6:مثیل مسيح، مہدی اور مسيح موعود کا کنفیوژن
اگرچہ
احمدیت میں مرزا صاحب کو مسیح موعود اور غالباً مہدی بھی تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن
خود مرزا صاحب اِن اصطلاحات یا خطابات کے استعمال کرنے میں کنفیوژن کا شکار نظر
آتے ہیں، اور دوسروں کو بھی کنفیوز کر دیتے ہیں۔ یہ بات بہت سے احمدیوں کو معلوم
نہیں ہوگی کہ سب سے پہلے اُنہوں نے " مثیلِ موعود" یا " مثیلِ
مسیح" ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ فرماتے ہیں:
"اس عاجز نے جو مثیلِ موعود ہونے کا
دعویٰ کیا ہے، جِس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں، یہ کوئی نیا دعویٰ
نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنُا گیا ہو، بلکہ وہی پرانا الہام ہے جو خدا تعالیٰ سے
پاکر 'براہین احمدیہ' کے کئی مقامات پر بتصریح درج کر دیا گیا تھا، جس کے شائع
کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہوگا۔میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں
کیا کہ میں مسیح بن مریم ؑہوں۔ جو شخص یہ الزام مجھ پر لگاوے، وہ سراسر مفتری اور
کذّاب ہے۔ بلکہ میری طرف سے عرصہ سات یا آٹھ سال سے برابر یہی شائع ہو رہا ہے کہ
میں مثیلِ مسیح ہوں، یعنی حضرت عیسیٰؑ کے بعض روحانی خواص، طبع اور عادات اور اخلاق وغیرہ خدائے تعالیٰ نے میری
فطرت میں بھی رکھے ہیں۔ اور دوسرےکئی امور میں، جن کی تصریح انہیں رسالوں میں کر
چکا ہوں، میری زندگی کو مسیح ابن مریمؑ کی زندگی سے اشد مشابہت ہے۔ اور
یہ بھی میری طرف سے کوئی نئی بات ظہور میں نہیں آئی کہ میں ان رسالوں میں اپنے
تیئں موعود ٹھہرا یا ہے ، جِس کے آنے کا
قرآن شریف میں اجمالاً اور احادیث میں تصریحاً
بیان کیا گیا ہے ۔
کیونکہ میں تو پہلے بھی 'براہین
احمدیہ' میں بتصریح لِکھ چُکا ہوں کہ میں وہی مثیلِ موعود ہوں، جِس کے آنے کی خبر
روحانی طور پر قرآن شریف اور احادیثِ نبویہ میں پہلے سے وارد ہو چکی ہے۔( نعوذ
باللہ)۔
(روحانی خزائن ، ج 3،192 ، ازالہ اوھا م 1891ء)
مرزا
صاحب کے یہ مفروضات صرف خود تک محدود نہیں تھے بلکہ آنے والے دعویداروں سے بھی
تعلق رکھتے تھے۔ لکھتے ہیں:
"میں نے صِرف مثیلِ مسیح ہونے کا دعویٰ
کیا ہے، اور میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صِرف مثیلِ ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے،
بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اوردس ہزار بھی مثیلِ مسیح
آ جائیں۔
ہاں اِس زمانے کے لیے مثیلِ مسیح میں
ہوں اور دوسرے کا انتظار کرنا بے سود ہے۔ اور
یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ صرف میرا ہی خیال نہیں کہ مثیلِ مسیح بہت سے ہو سکتے ہیں،
بلکہ احادیثِ نبویہ ؐ کا بھی یہی منشا پایا جاتا ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم فرماتے ہیں کہ دُنیا کے اخیر تک قریب تیس دجال کا آنا ضروری ہے ۔ تو
بحکم لکل دجال عیسی ٰ، تیس مسیح بھی آنے چا ہیے ۔ بس
اس بیان کی روح سے ممکن ہے اور بالکل ممکن
ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آ
جائے جِس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ
صادق آ سکیں۔"
(روحانی خزائن ، ج 3،198-197 ، ازالہ اوھام اوّل 1891ء)
اسی
طرح لکھتے ہیں
:"بالآخر یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں
کہ ہمارے بعد کوئی اور بھی مسیح کا مثیلِ بن
کر آوئے کیونکہ نبیوں کے مثیلِ ہمیشہ دُنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ
خدا ئے تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیش
گوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریعت سے ایک شخص پیدا ہوگا، جِس کو
کئی باتوں میں مسیحؑ سے مشابہت ہوگی، وہ
آسمان سے اُترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کرے گا۔"
(روحانی خزائن ، ج 3،180-179 ، ازالہ اوھام اوّل 1891ء)
اِن
عقائد کی بنیاد پر مرزا صاحب کی زندگی ہی میں کچھ احمدیوں نے نبوت کے دعوے کیے
۔اور اسی بنا ء بنیاد پر احمدیوں کو مزید
"مثیلی مسیحوں" کے انتظار میں رہنا چاہیے، جو اِن میں مزید فرقوں کی
بنیاد ڈالیں گے، خاص طور پر وہ جو آسمان سے اُترے گا۔
*
باب
9:ذہنی علالت اور تجزیہ
ڈاکٹر
مال کے مطابق مرزا صاحب کو ہسٹریا (Hysteria) نے اُلجھے ہو ے(Confused)ذہن کا مالک بناڈالا تھا۔ ۔ اور جُوں جُوں اُن
کی عمر میں اضافہ ہوتا گیا، اُنکی ذہنی حالت
گر تی گئی، اور وہ سرابِ ذہنی
(Hallucination) اور
خبطِ فریب ذہنی (Delusion) کا شکار ہوتے گئے۔
ڈاکٹر
مال کے مطابق حقائق اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مرزا صاحب تیس(30) سال کی عمر سے قبل ہی حقیقی دنیا سے دُور ہوتے
جا رہے تھے۔
"ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ِکسی نبوت کے
دعویدار کی صداقت اور ساکھ کو اِس حقیقت سے زیادہ کوئی چیز متاثر نہیں کر سکتی کہ
وہ ہسٹریا کا شکار ہو۔ ایک صاحبِ وحی یا ملہم شخص تو اللہ کا کلام بیان کرتا ہے،
لیکن ہسٹریا کا مریض اپنی ہی ذہنی خرافات اور افسانوں میں ملوث رہتا ہے۔
ڈاکٹر مال کے مطا بق مرزا صاحب کے ماننے والوں کا بھی مذہبی اور سماجی طور پر مسلمانوں سے کو ئی تعلق نہیں ۔ اِن کی اپنی مذہبی سرگرمیاں ہیں جو مسلمانوں سے الگ ہیں ۔ کیونکہ احمدیہ تحریک ، اسلام کے بُنیادی اُصولوں سے کسی طور میل نہیں کھاتی.
باب
11:وحی، الہام، کشف، اور پیشگو ئی کی حقیقت
فريب ميں فريب
مرزا صاحب کے خوابوں ميں بھی کنفیوژن ہے۔
ايک خواب ميں وہ اپنے سر پر ايک بھاری پتھر ديکھتے ہيں جو کبھی لکڑی دکھا ئی ديتا ہے۔ اور پھر ان کی دعا سے وہ ايک خوب صورت بھينس بن جاتا ہے۔
)تذکرہ, ص،(274
, 1899
ايک خواب ميں وہ خود کو ايک بھاگتے ہوئے ہاتھی سے بھاگتا ہوا ديکھتے ہيں جو گليوں ميں غائب ہو جاتا ہے۔ پھر منظر تبديل ہو جاتا ہے۔ اور وہ ولايتی نوکوں والے قلم سے کچھ لکھ رہے ہيں اور کہتے ہيں يہ بھی نامرد نکلا۔اور پھر قران کی ايک آيت نازل ہوتی ہے۔
)تذکرہ، ص 221،(1904)
ايک خواب ميں وہ ايک سرخ کولا وائن کی بند بوتل ديکھتے ہيں، جو رسيوں سے جکڑی ہوئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ايک کتاب ہے۔
)تذکرہ ص 525، (1906.
اس ميں کوئی شک نہيں کے احمدی بھی خوابستان ميں رہنا پسند کرتے ہيں.
باب
14:شخصیت کےچند عجيب پہلو
مرزا صاحب کے عجیب نفسیات بعد میں
بھی ان پر غالب رہی۔ مرزا بشیر احمد لکھتے ہیں:
"نہ
آپ کو کبھی پرواہ تھی کہ لباس عمدہ ہے یا برش کیا ہوا ہے، یا بٹن سب درست لگے ہیں ہوئے ہیں یا نہیں، صِرف
اصل غرض مطلوب تھی۔ بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے میں لگے ہوئے
تھے بلکہ صدی کے بٹن کوٹ کے کاجوں ںمیں لگائے ہوئے دیکھے گئے، (آپکو) اصلاح لباس
کی طرف توجہ نہ تھی۔"
(سیرت المہدی ، حصہ دوم,126 مرزا بشیر احمد)(حیاتِ طیبہ از عبدالقادر قادیانی476)
مزید لکھتے ہی:"بعض
دفعہ جب حضور (مرزا صاحب) جراب پہنتے تو
بے توجہی کے عالم میں اِس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی
اور بار بار ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگایا ہوا ہوتا تھا، اور کوئی دوست حضور کے لیے گرگابی( جوتی) لاتا تو آپ بسا
اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے اور بایاں دائیں میں۔"
(سیرت المہدی ، حصہ دوم,58 مرزا بشیر احمد)
مندرجہ بالا تمام شہادتیں اِس بات پر گواہی دیتی ہیں
کہ مرزا صاحب مخبوط الحواس تھے۔
اس
طرح ایک نہایت ہی عجیب عادت جو مضحکہ خیز بھی ہے اور قابل اعتراض بھی، مرزا بشیر
احمد لکھتے ہیں:
"بیان
کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود اوائل میں غرارے (عورتوں کا
لباس )کا استعمال فرمایا کرتے تھے، پھر میں نے کہہ کہ وہ ترک کروا دیے۔"
مفتی محمد صادق نے جو مرزا صاحب کے صحابی تھے، اپنی تصنیف 'ذکر حبیب'31 پر مرزا صاحب کے غرارہ پہنے کی شہادت دی ہے۔ یہ کتاب بھی مطالعہ کی غرض سے کافی دلچسپ ہے۔ بہرحال اِس حقیقت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حصہ کہ مرزا صاحب کج لباسی کی طرف مائل رہے جس کی وجہ اِن کی نفسیاتی علالت ہی ہو سکتی ہے جو اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی تھی۔
کفنِ
عیسیٰ یا Shroud of Turin یہ وہ کپڑا ہے جو مفروضتا حضرت عیسیٰؑ کو
مصلوب کیے جانے کے بعد اُن کے جسم پر لپیٹا گیا تھا۔ یہ کفن اِٹلی میں موجود جان
دی بیپٹسٹ John
the Baptist کے گرجا میں موجود ہے اور مختلف مواقع پر اِس کی رونمائی کی جاتی رہی ہے۔معتقدین
عیسائیوں کے لیے اِس کفن کی اہمیت اس لیے ہے کہ انجیل (Bible)
کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑتین روز تک اس کفن میں لپٹے رہے اور معجزانہ طور پر اُن
کے جسم کی شبیہہ اِس کفن پر منتقل ہو گئی
۔ تین دِن بعد وہ زندہ ہوئے اور بعد میں آسمان پر چلے گئے۔ جبکہ احمدیوں کے نزدیک
وہ تین دن تک کفن میں تین روز تک بے ہوش
رہے اور ہوش میں آنے کے بعد اپنا ملک چھوڑ
کر ہندوستان ہجرت کر گئے۔
واضح
رہے کہ احمدیت میں یہ عقیدہ سراسر بائبل پر منحصر ہے، قرآن پر نہیں۔ کیونکہ قرآن
کے مطابق " وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ " (سورۃ النساء :157)سے
مراد یہ وہ نہ قتل کیے گئے اور نہ ہی
مصلوب ہوئے
بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ(سورۃ
النساء :158) ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنی
طرف اٹھا لیا۔ یعنی قرآنی بیان کے مطابق
کفنِ عیسیٰؑ کا وجود بھی ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ احمدیت میں ایسے معجزات غیر سائنسی(un-scientific)
مانے جاتے ہے۔
باب
19:مقدمہ احمدیت ۔1974ء
اَب
مندرجہ ذیل سوال و جواب پر غور فرمائیں،
جِس سے مرزا ناصر کی اپنی "ہار " واضح ہو جاتی ہے، وہ خود کو اور اپنی جماعت کو خود ہی اسلام سے الگ کر دیتے ہیں ۔ یہ گفتگو انگریزی زبان میں ہے:
Yahya:
Alright, “if the National Assembly passes a resolution that Ahmadis are outside
the circle of Islam, you have no objection?”
ترجمہ:
"درست! اگر نیشنل اسمبلی یہ قرارداد پاس کر دے کہ
احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو کیا آپ کو کوئی اعتراض ہوگا؟"
Mirza Nasir: “No, with the addition of phrase that they are within the pail of
Islam?”
ترجمہ:
"نہیں، مگر اِس اضافے کے ساتھ کہ وہ اسلام کی سطل میں ہیں۔"
Yaha(repeats)
: “Within the Pail of Islam but outside the circle of Islam.”
ترجمہ: "اِسلام کی سطل میں، مگر
دائرہ اسلام سے خارج۔"
Mirza Nasir: “Outside the circle of Islam ….. and….”
ترجمہ:
"دائرہ اسلام سے خارج… اور۔۔۔۔۔" (319)
گویا
مرزا ناصر نے دو دائروں کا مسئلہ خود ہی حل کر دیا۔
آئینہ
دیکھ کر تو میں حیران ہو گیا
اپنے وجود پہ
ہی پشیمان ہو گیا
اِس کا کاروبار دین نے تو لادین بنا
دیا
ایمان کو تو لا تو بے ایمان ہو گیا
دُنیا
کا علم جانا، سمجھا نہ اپنا دیں
اِس جستجو میں ذہن تو ویران ہو گیا
حسرت بنا رہا جو برس ہا بصدِ شوق
نکلا وہ میرے دِل سے تو ارمان ہو گیا
اُس
ذات سے منسوب کیا نفع و نقصان
کب جانے وہ غفآر مہربان ہو گیا
ڈھونڈا جگہ جگہ مگر کھولا نہ اپنا دل
جھانکا تو تیری دید کا سامان ہو گیا
قدموں
پہ اپنے چلنا تھا دشوار کس قدر
کاندھے سے اُس کے رستہ یہ آسان ہو گیا
...................
Comments
Post a Comment